تیرا یوں کہنا کہ اب دوبارہ نہیں ملنا
برملہ ہی یہ کہہ دو گوارہ نہیں ملنا
اِک بار جو آ گھیرا موجوں کے طلاطم نے
پھر آس کی کشتی کو کنارہ نہیں ملنا
بیٹھا رہوں گا یوں ہی درِ جاناں پہ
رُخصت کا جب تک اشارہ نہیں ملنا
ہاتھوں کی لکیروں سےاب کون لڑے
شائد یہی بہتر ہو، ہمارا نہیں ملنا
دیوانہ بنا کہ مجھ کہ اُس نے یوں کہا
گلیوں میں یوں ایسے آوارہ نہیں ملنا
اِس بے رُخی کا کُچھ تو سبب بتا دو
اب جاں ہی نہ لے لے تمھارا نہیں ملنا