دور تجسس کو کئی ڈیرے نظر آتے ہیں
دل کے غلاف بڑے اندھیرے نظر آتے ہیں
اس دست اندازی کو بھی کس طرح روکیں
جہاں دیکھوں رُخ تیرے نظر آتے ہیں
کیا کچھ دیوانگی سے اب کھو بیٹھے ہو کہ
ان سنسان گلیوں میں روز پھیرے نظر آتے ہیں
یوں تو شوخی نے اپنی استین میں پالیئے
نگاہ جستجو کو سب سپیرے نظر آتے ہیں
اس مزاحمت کو بھی کیا کہا جائے جب
تقدیر کو بھی تدبیر کے مہرے نظر آتے ہیں
اپنی تونگری سے کتنے بھی پاس سے گذرو مگر
مجھے تو سنتو ش خیال میرے نظر آتے ہیں