دوستوں کے لئے دشمنوں کے لئے
شاعری میری زندہ دلوں کے لئے
عدل و انصاف کی بات کیسے کروں
موت کی ہے سزا منصفوں کے لئے
ہو تمنا جسے ہفت اقلیم کی
کیا کرے گا وہ ہم سائلوں کے لئے
کیسی کیسی ہیں غربت کی مجبوریاں
بیچ دیں عصمتیں درہموں کے لئے
جو مرے رب کا مجھ پر بڑا فضل ہے
وجہِ تکلیف ہے حاسدوں کے لئے
چیختا ہے تو نادرؔ عبث اس طرح
مر چکے سب یہاں مخلصوں کے لئے