ہم نے بے غرض ہو کر سب ہی آزمائے ہیں
دوستی بھی دیکھی ہے ، دشمنی بھی جھیلی ہے
مسکراتے چہروں سے سب کا دل بہلتا ہے
غم نہیں کسی کو بھی، کس کی آنکھ گیلی ہے
بیش و کم کا غم ساقی، اب نہیں ہمیں باقی
تلخئ دہر ہم نے مے سمجھ کے پی لی ہے
اب اجل کی راہ تکتے روزوشب گزرتے ہیں
ہے بہت وہی کافی زندگی جو جی لی ہے
ہے عبث گلہ کرنا مطلبی رویوں کا
اس لئے زباں فیصلؔ ہم نے اپنی سی لی ہے