دولت ملی نہیں ہے یہ بنیاد کھا گئی
ماں باپ کی کمائی تو اولاد کھا گئی
محنت بہت کی ہل بھی چلائے بچا نہ کچھ
دولت بہت لگائی مگر کھاد کھا گئی
دیکھے جو خواب پورے ہوئے نہ وہ دوستو
اپنی بتائی سب کو تھی روداد کھا گئی
اچھا نہ بن سکا میں تو شاعر بھی اس لیے
جھوٹی ملی کبھی تھی مجھے داد کھا گئی
شہزاد کر کمال حکومت نے بھی دیا
غرباء کو جو ملی سبھی امداد کھا گئی