بابل تيرے آنگن ميں معصوم سی چڑياں رہتی تھيں
جنھيں وقت كے پروں نے ايک ايک كر كے اڑايا تھا
بہت سنبھال كر ، چھپا كر تو نے ہم كو پالا تھا
زمانے كا كوئی شكاری ہمارے پاس نہ آنے پايا تھا
ماں باپ كے پاس ہم پريوں كی جيسی تھيں
انھوں نے اپنے خون پسينے سے ہم كو كھلايا تھا
پيار كا ہميں جہاں ملے خوشيوں كی بہار ملے
ايک ايک كر كے بابل تو نے ڈولی ميں بٹھايا تھا
تكليف ميں دونوں ہمارے لئے تڑپتے تھے
كسی بھی كمی كا احساس ہميں نہ دلايا تھا
كبھی آپ دونوں كی ياد نہ آئے يہی چاہا تھا
تيری بانہوں كے جھولے ميں اپنا بچپن بتايا تھا
ماں تو نے خود كو مٹا كر ہم كو بنايا تھا
اپنے ہاتھوں سے اپنا آشيانہ سجايا تھا
)مگر ديكھ بابل آج تيرے آنگن كی چڑياں.. اپنے اپنے دكھوں ميں اكيلی روتی ہيں.. دكھ تكليف ميں روتی ہيں تو كوئی ان كے ساتھ نہيں روتا.. وہ اكيلی ہی تكليفوں ميں خود سے لڑتی ہيں..
كوئی نہيں بابل جو ہمارے آنسو پونچھ لے آ كر... ماں رونے كو تيری گود چاہئے ہميں.. بابل رونے كو تيرا كندھا ، سر پر تيرا ہاتھ چاہئيے ہميں..ديكھ بابل تيرے آنگن كی چڑياں اكيلی روتی ہيں..
بہت اكيلی ہوتی ہيں..( ;