دُکھ بھی ملیں تو مسکرایا کرو
اپنے رُخ پہ خوشیاں سجایا کرو
ایک دن ضرور بن جاؤ گے شہنشاہ
ہم فقیروں کے پاس آیا جایا کرو
دلِ مُضطرب کو مِل جائے گی راحت
روتے ہوئے بچوں کو ہنسایا کرو
اوروں پہ تو اُٹھاتے ہو اُنگلیاں
خود کو بھی آئینہ دکھایا کرو
آخر کب تک رہو گے پردہ نشین
کبھی کبھی تو جلوہ دکھایا کرو
سُکھ میں تو ہر کوئی ہوتا ہے ساتھ
دُکھ میں بھی کسی کے کام آیا کرو
دُشمنی سے کیا حاصل ہو گا لوگو
دوستی کے لئے ہاتھ بڑھایا کرو
امر ہر خطا ہو جائے گی درگزر
روٹھے ہوئے یار کو منایا کرو