دُھواں دُھواں سبھی منظر دِکھایٔ دیتے ہیں
مجھے سلگتے ہوۓ گھر دِکھایٔ دیتے ہیں
مدافعت کا طریقہ بھی خوب تر ہے یہ
ہر ایک ہاتھ میں پتھر دِکھایٔ دیتے ہیں
قریب ہیں جو رگِ جاں سے بھی مری بڑھ کر
سدا وہی تو سِتم گر دِکھایٔ دیتے ہیں
نظر اٹھاتی ہوں جب اپنے خیمۂ جاں پر
قدم قدم بڑے محشر دِکھایٔ دیتے ہیں
قریب جاؤں تو صحرا کی مِثل ہیں وہ بھی
تِری نظر میں جو ساگر دِکھایٔ دیتے ہیں
یہ بے زمینی کے سارے اندھیرے مجھ تک ہیں
جو دُور سے مہ و اختر دِکھایٔ دیتے ہیں
کبھی تو تھے وہی تسکینِ جاں کا پہلو بھی
جو بزمِ غیر میں اکثر دِکھایٔ دیتے ہیں
مجھیُ پہ عذراؔ مسلط ہے پیاس کا صحرا
قدم قدم پہ سمندر دِکھاِیٔ دیتے ہیں