دِل کا جو حال تھا پہلے وہ کہاں ہوتا ہے
اب تو ہر گام پہ احساسِ زیاں ہوتا ہے
جب منڈیروں پہ جلا کرتے ہیں راتوں کو دئیے
چار سوُ ہی مرے خوابوں کا دُھواں ہوتا ہے
راز چھپتا ہے کہاں دِل کے نہاں خانے میں
جو بھی اندر ہو ، وہ چہرے سے عیاں ہوتا ہے
کشتیاں سب کی کنارے پہ لگا دیتا ہے
جب کبھی موج میں یہ آبِ رواں ہوتا ہے
بیکلی دِل میں مرے کوئی عجب ہوتی ہے
جب گلستاں میں بہاروں کا سماں ہوتا ہے
دِن تو کٹ جاتا ہے ہنگاموں میں جیسے تیسے
رات ڈھلتے ہی مگر درد جواں ہوتا ہے
یوں تو ہر بار سنا کرتی ہوں پیغامِ بہار
میرے چہرے پہ مگر رنگِ خزاں ہوتا ہے
کھو گیا بھیڑ میں جانے وہ کہاں پر عذرا
جس کی آنکھوں پہ ستاروں کا گماں ہوتا ہے