دِلبر و ہم نوا کو ہار گیا
آج اک ناخدا کو ہار گیا
آرزو کے قمار خانے میں
اُس کو ہارا، خدا کو ہار گیا
بے نہایت تھی مطلبی دنیا
شاہکارِ وفا کو ہار گیا
جس کا جوگی تھا میں پُجاری تھا
میں اُسی دیوتا کو ہار گیا
تیرے عفو و کرم کی بخشش سے
ہائے لطفِ سزا کو ہار گیا
وصل کی شب نہیں خُوشی کی شب
شوقِ آہ و بکا کو ہار گیا
آج مجھ سے مرا یقین گیا
لبِ گورِ دعا کو ہار گیا
اب نگل لے مجھےتُو اے گرداب
دستِ مشکل کشا کو ہار گیا
ہاے آزارِ بے کسی کا رنج
اور امیدِ شفا کو ہار گیا
راستے مٹ گئے قدم بھٹکے
آخری راہنما کو ہار گیا
پھول مرجھا گئے سبھی دل کے
میں بہارِ صبا کو ہار گیا
ڈھل گئی نبض مر گیا دل بھی
آج تجھ جاں فزا کو ہار گیا