دکھ افسانہ نہیں کے تجھ سے کہیں
دل بھی مانا نہیں کے تجھ سےکہیں
آج تک اپنی بے کلی کا سبب
خود بھی جانا نہیں کے تجھ سے کہیں
بے ترہ حالِ دل ہے اور تجھ سے
دوستانہ نہیں کے تجھ سے کہیں
اک تُو خرفِ آشنا تھا مگر
اب زمانہ نہیں کے تجھ سے کہیں
قاصدہ ہم فقیر لوگوں کا
اِک ٹھکانہ نہیں کے تجھ سے کہیں
اے خدا دردِ دل ہے بخششِ دوست
آب و دانا نہیں کے تجھ سے کہیں
اب تو اپنا بھی اُس گلی میں
آنا جانا نہیں کے تجھ سے کہیں