شام کے پھیلتے ہوئے سائے میں تھی اور
میرے ہاتھوں میں کچھ کتابیں تھیں
ان کتابوں میں چند تصویرے مجھ سے کہنے لگی
جو دن رات کے غم کدے میں
دکھوں کے اندھیرے میں جیتی رہی ہوں
مردہ ضمیروں،مہکتے صحفوں کے دامن میں
دکھوں کی امانت اٹھائے
سکھوں کے خزانے لٹاتی ہوئی تم
ایک جنت ہی کی تشکیل کر رہی ہوں