ہوئی ہے جس طرح ویراں دل کی بستی
ایسے تو ویرانے بھی نہیں ہوتے
چند لمحوں میں جلا کے راکھ کر دیا سب
یوں راکھ بجلیوں سے آشیاں بھی نہیں ہوتے
بے بسی میں حسرتوں کا قتل المناک ہے
کیا قاتلوں کے سینوں میں دل بھی نہیں ہوتے
کیسے خاموشش سوئے ہیں معصوم تہے خاک
اب تو کھلونوں کیلئے بھی نہیں روتے
روئے جتنا بھی کوئی اب نہیں بولتے
ایسے تو بیگانے بھی نہیں ہوتے
وقت کے مرہم سے بھی ہرے رہتے ہیں
دلوں کے گھاؤ پرانے بھی نہیں ہوتے
حوریں جھلاتی ہیں جھولا تو کہتے ہیں
دنیا میں تو ایسے جھولے بھی نہیں ہوتے