گمشدہ اوراق کی دھندلی سی تحریر ہوں
لمحہء گم گشتہ کی ناکردہ اک تقصیر ہوں
شاخ ہوں کمزور سی اور پھول کملایا ہوا
گلشن برباد کی اک انکہی تفسیر ہوں
ہر طرف ہےعشق کے ماروں کا اک جم غفیر
ہر مریض عشق کے احساس کی تشہیر ہوں
یہ خزاں سے آشنائی کا اثر ہے کیا کروں
زرد چہرہ بال بکھرے یاس کی تصویر ہوں
کیا عجب کہ ایک ہی جھونکے میں نیچےآپڑے
اک شکستہ سائباں ہوں نیم جاں شہتیر ہوں
زندگی کی خود پرستی نفس کی آوارگی
عالم فانی کی میں لا فانی اک تصویر ہوں
ربط سے عاری لکیریں انکہی بے رنگ سی
زندگی کے کینوس پہ دل کی اک تصویر ہوں