مدت ہوئی وہ ہم سے بیزار ہو گئے
ہم زندگی کی دھوپ کا شکار ہو گئے
اڑتی ہوئی ریت آنکھوں میں بھر گئی
اشکوں میں ایسے ڈوبے کہ بیکار ہو گئے
رکتا نہیں سفر وحشت ہے راہ گزر
سرابوں کے اس شہر میں خوار ہو گئے
رنج و غم کی ہوائیں رگوں میں اتر گئیں
سب خواب میری راہ میں دیوار ہو گئے
کیسا ہے رفو گر جو دامن ناں سی سکا
سوراخ میرے آنچل میں بے شمار ہو گئے
کانپتی ہوئی سوچوں پے پہرا ہے رات کا
آئینے میں عکس دیکھ کر شرمسار ہو گئے