دھوپ میں رخت سفر باندھا ہے پھر گاؤں کا
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, ملایشیاتیرے احساس کے جلتے ہوئے صحراؤں کا
دھوپ میں رخت سفر باندھا ہے پھر گاؤں کا
زندگی تیرے بنا یوں تو گزر جائے گی
خون ہوتا ہوا دیکھا ہے تمناوں کا
عشق میں ہوتی ہے رسوائی ذرا سوچ کے چل
نشہ بڑھتا ہے جو الفت میں حسیناؤں کا
راہ میں دَیر بھی ، مسجد بھی ہے میخانہ بھی
ذکر اچھا نہیں راہوں میں کلیساؤں کا
مجھ کو معلوم ہے اب میری ضرورت کیا ہے
میں تو کانٹا تھی تری راہ ، ترے پاؤں کا
زخم کو اور بڑھاتے ہیں نئے زخم کے ساتھ
آج یہ حال ہے الفت کے مسیحاؤں کا
جب بھی سنتی ہوں میں کوئل کی صدائیں وشمہ
یاد آتا ہے مجھے نغمہ مرے گاؤں کا
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






