مجھے دھوکہ میرا دل جانی دے گیا
خشک آنکھوں کو وہ پانی دے گیا
نہ جانے کیسے ڈھونڈوں گی اسے
مجھے تصویر وہ پرانی دے گیا
کسی کو کیسے یقیں آئے ہماری محبت کا
مجھے کوئی نہ وہ نشانی دے گیا
اسے کتنی فکر تھی میری تنہائی کی
دل بہلانے کو شاعری بھی پرانی دے گیا
نہ جانے کیسے بھولیں گے اسے
جاتے جاتے نہ کوئی شام سہانی دے گیا