دھیان ہے میرا ابھی تک منظروں کی قید میں
میرے روز و شب ہیں کیسے موسموں کی قید میں
یہ رواجوں میں گھِری سہمی ہوئی سی لڑکیاں
جِس طرح معصوم پنچھی ساحروں کی قید میں
ساری خوشیاں آنکھ سے اوجھل نہ ہو جائیں کہیں
میں کہ شاید ہوں ابھی تک واہموں کی قید میں
نام ہوتا ہے ہر اِک رِشتے کا دُنیا میں کوئی
سارے رِشتے ہی بندھے ہیں بندھنوں کی قید میں
نرم و نازک تتلیوں کو دیکھ کر لگتا ہے یوں
رنگ ہیں قوسِ قزح کے تتلیوں کی قید میں
دے رہے ہیں آپ گمراہی کو آذادی کا نام
خوش ہوں میں خود ساختہ پابندیوں کی قید میں
آیٔنہ سچ بولتا ہے نازؔ یہ تسلیم کر
کٹ گئی تیری جوانی اُلجھنوں کی قید میں