Add Poetry

دی مِسِنگ لِنک

Poet: Perveen Shakir By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI

عجب ہے ارتقا کے باب کا یہ ذہن افگن مسئلہ
سارے عناصر
اپنی پہلے سے تعین کردہ ہیئت میں
کہیں سے جمع ہوتے ہیں
پھر اُس کے بعد بے حد خاموشی سے
واپسی کے طے شدہ رستوں پہ اِک دن چل نکلتے ہیں
ازل سے زندگی کا دائرہ
یونہی سفر میں ہے
عناصر کا تناسب اپنے منظر کے تناظر میں بدلتا ہے
تلاشِ رزق میں گردان فصیلِ جسم سے باہر نکل جائے
کبھی سارا ہنر پنجوں میں در آئے
کبھی تلوے ہی جھڑ جائیں
کچھاریں اوربھٹ اور غار اور اسکائی سکریپر
زمیں پر پھیلتے جائیں
کبھی آہستہ آہستہ
کبھی یک لخت
اورگاہے بہ گاہے
دونوں صورت میں
(ابھی دانشوروں میں یہ سخن کچھ اختلافی ہے)
مگر شجرہ ہمیں مطلوب ہے
جس ذی حشم ذی شاں قبیلے کا
وہاں آ کر نسب نامہ
گھنے بالوں مناسب شکل و صورت قدوقامت تک
پہنچ کر گنگ ہو جاتا ہے
اُس کے بعد پھر بس ایک منزل
ایک لمحہ
ایک صدی
آنکھوں سے اوجھل ہے
حقیقت یہ ہے لیکن
اگر تھوڑی سی سچائی نظر میں گھول کر
اِک دن ذرا سا اپنے گرد و پیش کو
ہم دیکھ ڈالیں
تو یہ گم گشتہ حلقہ ایسے روشن ہو
کہ سب کھوئی ہُوئی کڑیاں
ہمارے ہاتھ آ جائیں
اگر تھوڑی سی جرأت
اور تنہائی میں آئینہ اُٹھا کر دیکھنے کا حوصلہ بھی ہو
تو شاید
اتنی زحمت بھی نہیں کرنی پڑے ہم کو

Rate it:
Views: 244
01 Nov, 2011
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets