لگی ہے آگ جو من میں بُجھاؤں کیسے
یہ پیاس زیست کا ارماں ہے مِٹاؤں کیسے
ہزاروں خواہشیں پالی ہیں ایک مُدت میں
میں حسرتوں سے اب آنکھیں چُراؤں کیسے
دیئے کا ٹِمٹمانا موت کی آہٹ ہی سہی
میں کاسئہ بھیک کا ہاتھوں میں اُٹھاؤں کیسے
عشرت وارثی آسیب کی مانند یادیں
دِل کے ویرانے میں پنہاں ہیں بُھلاؤں کیسے