دیا جلائیں بھی تو روشنی نہیں ہوتی
بسر کسی بھی طرح زندگی نہیں ہوتی
ہیں اتنے کرب میں اہل وطن کہ اب میری
میرے وطن کی طرف واپسی نہیں ہوتی
یوں حادثات مسلسل پہ سوگوار ہے دل
خوشی کی بات پہ بھی اب خوشی نہیں ہوتی
نہ کوئی گھر میں ہے محفوظ اور نہ مسجد میں
حاکم وقت کو شرمندگی نہیں ہوتی
کسی کا غم ہے جو گویائی دے گیا ہے مجھے
بلا سبب تو ظفر شاعری نہیں ہوتی