دیار غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
تمہی نے ہم کو سنایا نہ اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ کرتے کہ ہم آسماں ہلا دیتے
ہمیں یہ زعم رہا اب کے وہ پکاریں گے
انہں یہ ضد تھی کہ ہر بار ہم صدا دیتے
وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جس کو حال سناتے اسے رولا دیتے
تمہیں بھلانا ہی اصل تو دسترس میں نہیں
جو اختیار بھی ہوتا تو کیا بھلا دیتے
ہم اپنے بچوں سے کیسے کہیں کہ یہ گڑیا
ہمارے بس میں جو ہوتی تو ہم دلا دیتے
تمہاری یاد نے کوئی جواب ہی نہ دیا
میرے خیال کے آنسو رہے صدا دیتے
سماعتوں کو میں تا عمر کوستا اسلام
وہ کچھ نہ کہتے مگر ہونٹ تو ہلا دیتے