دیار غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
تمہیں بھلانا ہی اول تو دسترس میں نہیں
جو اختیار بھی ہوتا تو کیا بھلا دیتے
تمہی نے ہم کو سنایا نہ اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ کرتے کہ ہم آسماں ہلا دیتے
وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
جسے بھی حال سناتے اسے رلا دیتے
ہم اپنے بچوں سے کیسے کہیں کہ یہ گڑیا
ہمارے بس میں جو ہوتا تو ہم دلا دیتے
سماعتوں کو میں تاعمر کوستا سید
وہ کچھ نہ کہتے مگر ہونٹ تو ہلا دیتے