دیارِ خواب سے واپس جو لوٹ کر آئے
نئی زمین نئے آسماں نظر آئے
ہے اپنے شہر میں اب کے فرار کا موسم
سفر سے لوٹ کے شاید نہ کوئی گھر آئے
ترقیوں کے فسانوں کی گونج ہے پھر بھی
خدا کرئے کہ بشر کی بھی کچھ خبر آئے
وہ جانتا ہے کی مجرم نہیں ہوں میں لیکن
وہ چاہتا ہے کی الزام میرے سر آئے
ہم اپنے آپ کو پتھر بنا رہے ہیں یہاں
وہاں خدا نہ کرے انکی آنکھ بھر آئے
کمال و فن کی میں قیمت لگا سکوں وشمہ
جہاں میں نام ہو یہ بھی اگر ہنر آئے