دیارِدل میں میرے جب سے تو نے قدم رکھا ہے
تیرے ہجر نے ہرلمحہ میری آنکھ کو نم رکھا ہے
تو میرا ہے اور میری دسترس میں بھی ہے لیکین
قسمت میں میری شائد، تیرے ہجر کا غم رکھا ہے
سوز ِعشق نے تو کردیا ہے اشک اشک مجے
چہرے کے تبسم نے ہی مگر میرا بھرم رکھاہے
وہ میرے لیے اک فسانے کے سوا کچھ بھی نہیں
ہائے تقدیر روا کیسا مجھ پہ یہ ستم رکھا ہے
وہ بھی میرے لہجے کی چاشنی سے ناشناسانکلا
اس نے بھی کتابِ دل میں مجھے مجرم رکھاہے
کمی تجھ می ہے نہ مجھ میں،نہ عشق میں کوئی
وصل کا موسم قدرت نے زندگی میں کم رکھا ہے
نہ حاصل ِ زیست ہے کچھ، نہ حاصل ِوفا کوئی
زندگی میں رضا میری فقط رنج و الم رکھا ہے
میں عشق میں بھی وحدت پہ بھی یقیں رکھتا ہوں
دریچہ ِ دل میں سجا کر میں نے اک ہی صنم رکھا ہے