دیر کر دی اس نے آنے میں
نہیں سچائی اس کے بہانے میں
لمحات وصل تنہایوں میں گزر گئے
گزری ہے شب دل جلانے میں
روٹھنا اس کی عادت سی ہو گئی ہے
کٹی ہے رات اسے منانے میں
یہ کیسا پیار ہےمعلوم نہیں ہمیں
بہت جلدی تھی اسے جانے میں
کیا ہے پھر اس نے وعدہ ملنے کا
نہیں یقین اس کے لوٹ آنے میں