جانے انجانے چہرے یہاں
اجنبی بیگانے سبھی مگر اپنے کہاں
بدیس میں رہ کر یاد ستاتی ہے
دیس کی اپنے یاد بہت آتی ہے
ماں باپ بھائی اور اک چھوٹی سی بہنا میری
سات سمندر پار میرے پیارے رشتے سبھی
روٹھنا منانا رونا ہنسنا تھا جن کے سنگ
غم اور خوشی کے یہ سارے رنگ
میری زندگی کا کبھی حصہ رہے
آج کیوں یادٍ ماضی کا حصہ بنے
دل چاہتا ہے لوٹ جائوں وہیں
توڑ دوں ساری بیڑیاں اور اُڑ جاؤں ابھی
پر لپٹ جاتیں ہیں ننی خواہشیں کسی کی
اسی فرض کو پورا کرنا ہے ابھی
سال پر سال بیت تے جارہے ہیں
میرے اپنے مجھے بھلا کر خوشی کے گیت گا رہے ہیں
ڈولرز کے ترازو میں تُلیں ساری محبتیں میری
حرص نے روند دیں ساری آرزوئیں میری
ایسا لگتا ہے دیکھا تھا اک خواب حسیں
تعبیر جس کی اب کوئی نہیں