میں نے ایک دیوانہ دیکھا ہے
ہر ادا میں افسانہ دیکھا ہے
بوجھیے گا مت کہ کون ہے وہ
میں نے غم اسکا چھپانا دیکھا ہے
رہتا وہ ہر لمحہ کشمکش میں کسی
میں نے آنسو نما مسکرانہ دیکھا ہے
جان کر بھی نا جانے کیسے بولو میں
کہ میں نے نا کبھی ایسا فسانہ دیکھا ہے
اس کے ساتھ ہر پل جب بھی ہو
میں نے مزاج بھی بیگانہ دیکھا ہے
کیسے غلطیوں سے سیکھے ہیں لوگ ہم
میں نے کھا کر ٹھوکر سنبھل جانا دیکھا ہے
خوب خبر ہے مجھے اسکے حال کی
میں نے پتھر کا ٹوٹ جانا دیکھا ہے