دیپ جلائے ہیں خون سے اپنے
لو میں تیری تصویر نظر آتی ہے
تم سے کتنی باتیں کرتا ہوں
جواب نہ آئے طبعیت گھبراتی ہے
چشم_ستم تو ذرا بتا تو سہی
کیا کبھی آنسو بھی بہاتی ہے
دل میں تیرے درد اٹھتا ہے کبھی
رات آنکھوں میں کٹ جاتی ہے؟
تمہیں سوچنا عادت ہے پرانی
عادت تو عادت ہے! کب جاتی ہے