دیکھ کر بھیگے تھے اُس کے بال پلک کے
منتظر شاید تھے میری ایک جھلک کے
پھر نہیں ملنا کبھی ، تھا آخری موقعہ
روئی وہ کاندھے سے سر لگا کے بلک کے
مجھ سے وہ ہوتی جدا ، اُس سے ذرا پہلے
تڑپا گئے اُس کو دو میرے آنسو ڈھلک کے
موقعہ نہ تھا کہ ساتھ اُس کے ، چھوڑنے جاتا
نظر گئی تھی ساتھ اُس کے دور تلک کے
جدائی میں اُس کی ریاض ، دریا کنارے
تھک گیا تھا رات گنتے تارے فلک کے