دیکھا جو آئینے میں تو حیران ہو گیا
کتنا گزرتے سالوں میں نقصان ہو گیا
نکلا جو چاند رات میں تنہا وہ مست ناز
خود چاند اس کے حسن پہ قربان ہو گیا
تھا معتبر تو جان تھا بزمِ جہان کی
بےکس ہوا تو سایہ بھی انجان ہو گیا
مشکل پڑی تو دوستوں کے بھید کھل گئے
اب آستیں میں جھانکنا آسان ہو گیا
کرتا رہا میں کرب میں دردِ جگر کشید
یہ زہر میرے درد کا سامان ہو گیا