قصور تو خیر دونوں کا تھا
اس نے گالیاں بکیں
اس نے خنجر چلایا
سزا دونوں کو ملی
وہ جان سے گیا
یہ جہان سے گیا
اس کے بچے یتیم ہوءے
اس کے بچے گلیاں رولے
اس کی ماں بینائ سے گئ
اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں
اس کا باپ کچری چڑھا
اس کا باپ بستر لگا
دونوں کنبے کاسہء گدائ لیے
گھر گھر کی دہلیز چڑھے
بے کسی کی تصویر بنے
بے توقیر ہوءے
ضبط کا فقدان
بربادی کی انتہا بنا
سماج کے سکون پر پتھر لگا
قصور تو خیر دونوں کا تھا
جیو اور جینے دو کے اصول پر
جی سکتے تھے
اپنے لیے جینا کیا جینا
دھرتی کا ہر ذرہ
تزءین کی آشا ر کھتا ہے
ذات کے قیدی
مردوں سے بدتر
سسی فس کا جینا جیتے ہیں