ذرا سی حرارت زباں لے گئی
یہ چھوٹی سی غلطی کہاں لے گئی
کہ لہرِ سمندر ترے پائوں کے
حسیں خوبصورت نشاں لے گئی
حسیں مسکراہٹ شب و روز کا
مِرا چین اے میری جاں لے گئی
کسی کی صدا کھینچ کر سب کا سب
مِرا ہم سفر کارواں لے گئی
آمد تمہاری کہوں اس سے کیا
بہار آ گئی اور خزاں لے گئی
ہمیں آج احساس ہونے لگا
وہ رنگینئی گلستاں لے گئی
تِری ایک اک بات سچ جعفری
یہ بزمِ سرودو بیاں لے گئی