ذرہ ذرہ سائباں تلے مرتا ہوا ملا
صحرا کو بادل بھی برسا ہوا ملا
کیا کرتے باغباں سے حفاظت کا گلہ ہم
ہمیں پھول شاخ پر ہی مُرجھا ہوا ملا
دن بھر سب کی پیاس بڑھاتا ہوا سورج
شام ڈھلے پانی میں اترتا ہوا ملا
شہر میں ہر شخص تھا وفا کا دعویدار
اور ہر شخص ہی پیار کو ترسا ہوا ملا
طبیعت میں اس کی عجلت سی رواں تھی
اخلاق وہ جب ملا ہم سے بچھڑتا ہوا ملا