مجھے یہ تسلیم کرنے میں شاید عمر لگے
کہ تو جاچکی ہے
تجھے رائیگانی کا اندازہ نہیں ہے
تجھے یاد ہے وہ زمانہ کہ جب
ان پگڈنڈیوں پہ ہمارے قدم بہم چل رہے تھے
تلخ دن بھی محبت کی شاموں میں ڈھل رہے تھے
رگوں میں دھڑکتی ہر دھڑکن
عشق کے سُرود سنا رہی تھی
تو کتنے سپنے سجا رہی تھی کتنے خواب دکھا رہی تھی
تجھے معلوم ہے کہ جب
کیمپس کی سیڑھیوں پر اک جہاں کیے ہوئے تھے
تو کلام کر رہی تھی تو کتنے گماں کیے ہوئے تھے
تو جب بول رہی تھی تو کائنات کی ہر آواز اپنے اندر
تیری آواز سموئے گونج رہی تھی
مگر
جس دم تو نے چپ سادھ لی
تو کتنے خوش گوؤں کے لحجے برباد ہو گئے
وہ جو کان دھرے بیٹھے تھے اِس آس میں کہ
تو بولے اور تیری آواز سے اپنی سماعتوں کا پیٹ بھر سکیں فنا ہو گئے
کیا ستم کہ تو بولی ہی بہت کم تھی !!
اب تو بہت دور جا چکی ہے
تو کہہ دو یہ سب خواب ہے فسانہ ہے
کہہ دو یہ گزرا ہوا زمانہ ہے
تجھے کیا معلوم کہ
میں اپنی شاعری میں ذرہ ذرہ بٹ چکا ہوں
میں اپنی ذات میں قطرہ قطرہ گَھٹ چکا ہوں
اب کہ میں دشت زاروں کی وحشت لیے
اپنے پیروں میں غم باندھے تا بہ گردوں بگولوں کے سائے تلے نوحہءِ رفتگاں گنگنا رہا ہوں
میرے ہاتھ تمہارے لمس کے تشنگی میں جھریوں کا جال بن رہے ہیں
اب تو خزاں رسیدہ پتوں پر بھی پاؤں رکھتے ہوئے ہجر کے نوحے یاد اتے ہیں
نارسائی کا اک دشت ہے جو میری نظموں میں خالی پن پرو رہا ہے
افسوس کہ
نارسائی کے نوحے کسی کی نظرِ سماعت نہ ہوئے
یہ درد لیے بے خانماں دل بجھ گیا ہے
تجھے خبر نہیں لیکن
اس زمینِ ناشناساں پر اس زماں میں
تیرے چلے جانے سے بزم جہاں میں
کچھ بھی پُر مزہ نہیں ہے
تجھے رائیگانی کا اندازہ نہیں ہے