رابطے رشتے نہ دیوار نہ در سے اس کے
کیسے آگاہ کوئی ہوگا ہنر سے اس کے
بے سبب کیسے کوئی اس کی گواہی دے گا
لوگ اگ آئیں حمایت میں کدھر سے اس کے
کچھ ہمیں بھی نہ رہا بات سمجھنے کا شعور
کچھ اشارے بھی نہیں صاف ادھر اس کے
فیض اس نخیلِ تمنا سے ہزاروں کو ملا
ہم ہی محروم رہے برگ و ثمر سے اس کے
آج تک یاد ہے وہ شامِ جدائی ساجد
اٹھ کے جس حال میں ہم آئے ہیں در سے اس کے