رات
Poet: محمد ثاقب By: محمد ثاقب, سرگودہارات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
سورج کو مشرق میں ڈوبتے دیکھا
چاند کو بادلوں میں چھپتے دیکھا
آگ کو جلتے بجھتے دیکھا
پانی کو جان دیتے لیتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
خواہشوں کو سیمٹتے پھیلتے دیکھا
کرنوں کو بجھتے دیکھا
ہرن کو شیر کا شکار کرتے دیکھا
قطرے کو سمندر بنتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
اندھیرے کو چھاتے دیکھا
بجلی کو گرجتے دیکھا
سناٹے کو خاموشی پر چھاتے دیکھا
چنگاری کو بڑھکتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
لفظوں کو خون کرتے دیکھا
خوشبوں کو جان لیتے دیکھا
محفلوں کو مان چھینتے دیکھا
درختوں کو سائبان بنتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
پروانے کو شمع جلاتے دیکھا
آگ کو پانی بھگاتے دیکھا
لباس کو پردہ ہٹاتے دیکھا
مکانوں کو مکین خریدتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
اہل علم کو نادان بنتے دیکھا
پاک و پلیت کو ایک ہوتے دیکھا
جستجو کو کھوتے دیکھا
نام کو گمنام ہوتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
سہموں کو لوٹتے دیکھا
زندگی کو موت بنتے دیکھا
سکون کو بے چین ہوتے دیکھا
صحرا کو پانی ہوتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
خون کو دریا میں بہتے دیکھا
لوٹیروں کو رہبر بنتے دیکھا
عقلمندوں کو ڈوبتے دیکھا
عزتوں کو لوٹتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
جانبازں کو سوتے دیکھا
سلطانوں کو روتے دیکھا
آزادیوں کو کھوتے دیکھا
پیاسوں کو زہر پیتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
حادثوں کو داستان بنتے دیکھا
اپنوں کو مرتے دیکھا
بھولوں کو بھٹکتے دیکھا
سپنوں کو بکھرتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
قوموں کو مٹتے دیکھا
مانوں کو بکتے دیکھا
فاقوں کو پلتے دیکھا
فوجوں کو سمیٹتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
ہجوم کو اٹھتے دیکھا
خاموشی کو ٹوٹتے دیکھا
طاقت کو اکھٹے ہوتے دیکھا
پُو کو پوٹھتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
وقت کو بدلتے دیکھا
سوتوں کو جاگتے دیکھا
رسی کو پکڑتے دیکھا
بے کسوں کو مدد مانگتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
شہہ سواروں کو زینیں پکڑتے دیکھا
کامیابی کو بڑھتے دیکھا
خوشیوں کو پیدا ہوتے دیکھا
مسکڑاہٹوں کو بکھرتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
غلاموں کو در پر اکھٹے ہوتے دیکھا
سکون کو سکون میں ہوتے دیکھا
پریشانیوں کو ختم ہوتے دیکھا
نظام کو سنبھلتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
مجرموں کو سزا پاتے دیکھا
فاتحوں کو شُکر ادا کرتے دیکھا
صبح صادق کو ہوتے دیکھا
طویل رات کو ختم ہوتے دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
رات، رات میں نے کیا دیکھا
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






