ان سیاہ یخ بستہ راتوں میں
تنہائی اک واحد ساتھی ہے
جو دل لٹانے آئے تھے
وہ جاں لے کر رخصت ہوئے
جہاں سفر کا آغاز ہوا تھا
وہی پھر انجام ہوا ہے
آہستہ سے کچھ کہنے کو
شنگرفی لب وا ہوئے تھے
اور پل بھر میں سب
رشتے ناطے تباہ ہوئے ہیں
اب بولائے بولائے سے
نجانے کہاں پھرتے ہیں
ان تاریک راتوں کی وحشت
اپنی جگہ پر قائم ہے
مگر جو قدم بڑھے تھے پذیرائی کو
اور ساتھی بنے تھے جو شام کو
رات کے سناٹے میں ڈھل چکے ہیں
آس کے جگنو مر چکے ہیں
رشتے ناطے سب جل چکے ہیں
آنکھوں میں نئی امید بسائے
پنچھی تو کب کے اڑ چکے ہیں
اور ہم
خود کو اسی دشت میں سنگسار کیے
کب کے لاشے دفنا چکے ہیں
پھولوں کی چاہ میں خود کو
قبرستان بنا چکے ہیں
اب آزمانے کو کیا باقی رہا ہے
مہمان تو سارے جا چکے ہیں۔لله