انگڑائی پے انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات میری تنہائی کی
کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں
میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی
وصل کی رات نجانے کیوں اسرار تھا اُنکو جانے پر
وقت سے پہلے ڈوب گئے تاروں نے بڑی دانائی کی
اُڑتے اُڑتے آس کا پنچھی کہیں دُور اُفق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی