رات جن کے لیے سوتیلی ماں
Poet: (محمد عثمان جامعی) By: M Usman Jamaie, karachiجو سمے کی تنی ڈور سے ہیں بندھی
دھوب چھاؤں اٹھاکر مسلسل چلیں
اور پھر رک گئیں
سوئیاں تھک گئیں
جلتے بلبوں میں ایسی تمازت تھی کہ
سائے جلنے لگے
اور اتنا جلے کہ سیاہ پڑگئے
وقت بننے لگا ایک اندھا کنواں
جس میں دن بھر کی آوازیں گرنے لگیں
کھو گئیں سب کی سب
ہوٹلوں، نکڑوں، آنگنوں اور کمروں میں
جو تھیں جمی محفلیں چھٹ گئیں
سنگتیں بٹ گئیں
لوگ تنہا ہوئے تو انھیں نیند کی مہرباں ماں نے آغوش میں لے لیا
بال سہلائے پلکوں پہ لب رکھ دیے
ہاں کچھ ایسے بھی تھے
جن کی آنکھوں میں چبھتی رہیں سوئیاں
دور جن سے رہی مہرباں نیند ماں
جن کے حصے کے سائے نکل کر اندھیروں سے زندہ ہوئے
اور کمرے میں کہرام کرنے لگے
کب کی بچھڑی صدائیں پلٹ آئیں اور
بیتے پل آکے ہنگام کرنے لگے
ہاں کچھ ایسے بھی ہیں
لاسکی نہ کوئی رات جن کے لیے
چین و راحت کی سوغات جن کے لیے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






