جو سمے کی تنی ڈور سے ہیں بندھی
دھوب چھاؤں اٹھاکر مسلسل چلیں
اور پھر رک گئیں
سوئیاں تھک گئیں
جلتے بلبوں میں ایسی تمازت تھی کہ
سائے جلنے لگے
اور اتنا جلے کہ سیاہ پڑگئے
وقت بننے لگا ایک اندھا کنواں
جس میں دن بھر کی آوازیں گرنے لگیں
کھو گئیں سب کی سب
ہوٹلوں، نکڑوں، آنگنوں اور کمروں میں
جو تھیں جمی محفلیں چھٹ گئیں
سنگتیں بٹ گئیں
لوگ تنہا ہوئے تو انھیں نیند کی مہرباں ماں نے آغوش میں لے لیا
بال سہلائے پلکوں پہ لب رکھ دیے
ہاں کچھ ایسے بھی تھے
جن کی آنکھوں میں چبھتی رہیں سوئیاں
دور جن سے رہی مہرباں نیند ماں
جن کے حصے کے سائے نکل کر اندھیروں سے زندہ ہوئے
اور کمرے میں کہرام کرنے لگے
کب کی بچھڑی صدائیں پلٹ آئیں اور
بیتے پل آکے ہنگام کرنے لگے
ہاں کچھ ایسے بھی ہیں
لاسکی نہ کوئی رات جن کے لیے
چین و راحت کی سوغات جن کے لیے