رات کے آنگن میں دیپ جلائے ہوئے
تیری یاد میں بیٹھا ہوں دنیا بھلائے ہوئے
نہیں کوئی ہم کو شکوہ کانٹوں کی فطرت سے
ہم تو ہیں پھولوں سے بھی زخم کھائے ہوئے
ایک اور دیکھو شمع پہ پروانہ ہوا نثار
ا ک طرفہ محبت کا تماشہ لگائے ہوئے
احساس مر چکا ہے اب تو وفا کا قیصر
اب تو دور ہم سے اپنے ہی سائے ہوئے