رات کے سائے میں آتا ہے، چلا جاتا ہے

Poet: سید بدیع الرحمان By: سید بدیع الرحمان, Skardu

رات کے سائے میں آتا ہے، چلا جاتا ہے
خواب آنکھوں میں سجاتا ہے، چلا جاتا ہے

یاد بن کر وہ میرے دل میں بسا رہتا ہے
دھوپ میں سائے سا آتا ہے، چلا جاتا ہے

درد کی راہ میں کب تک اسے آواز دوں؟
وہ میری سانس میں آتا ہے، چلا جاتا ہے

چاندنی رات میں مہکے ہوئے جذبات لیے
وہ چراغوں کو جلاتا ہے، چلا جاتا ہے

کوئی آہٹ، کوئی خوشبو، کوئی جلتی یادیں
دھوپ میں سایا بناتا ہے، چلا جاتا ہے

بدیع اشکوں میں سمندر سا چھپا ہے لیکن
وہ مجھے پیاسا ہی رکھتا ہے، چلا جاتا ہے

دل کی وادی میں بکھرتی ہیں کئی آہیں بدیع
وہ سکون دے کے رُلاتا ہے، چلا جاتا ہے

Rate it:
Views: 116
31 Jan, 2025