رات کے سناٹے کاٹتے رہے
ہم یوں بھی اپنی زندگی کزارتے رہے
ہر پل تیری سوچوں میں گم
بے خوابی میں تجھے ہی پکارتے رہے
بتاؤ ! کب آؤ گئے بھلا ہم سے ملنے
مددت سے تیرا راستہ نہارتے رہے
سنو ! اب ہاتھوں میں قلم پکڑ لیا ہیں میں نے
تنہائی میں تجھے ہی کاغذوں پر اتارتے رہے
شاید قدرت ابھی مہربان ہو جائے
یہی سوچ کر ہر پل خدا کو پکارتے رہے