رات کے مسافر کو کیوں ساتھ لے کر چلتے ہو
خوف ہے ندامت کا تو گر کے کیوں سنبھلتے ہو
جب بھی تیری نگاہ پڑی ہم بھی یوں پگھلنے لگے
تاریکیوں کے دریا میں کیوں شمع بن کے جلتے ہو
شہر خاموشاں میں آج پھر آندھیوں کا شور ہے
پتھروں کے شہر میں کیوں دل کو یوں مسلتے ہو