تاریخ کو تقدیر سمجھنے والو
تاریخ تو تخلیق ہے انسانوں کی
شاہد ہے شکستہ پائی اپنی
پہنچے نہیں ناگہاں یہاں ہم
دیدنی ہے شبِ فراق کا حُسن
موت آئی تو ہم بھی سولیں گے
ترے پہلو سے اُٹھ کر کھو گئے ہم
خیالوں کی گھنی تنہائیوں میں
سوُرج اُبھرا کہ قیامت جاگی
رات گزری کہ زمانے گزرے