راتوں کے خوف دن کی اداسی نے کیا دیا

Poet: فضل تابش By: Fazal, Lahore

راتوں کے خوف دن کی اداسی نے کیا دیا
سایے کے طور لیٹ کے چلنا سکھا دیا

کمرے میں آ کے بیٹھ گئی دھوپ میز پر
بچوں نے کھلکھلا کے مجھے بھی جگا دیا

وہ کل شراب پی کے بھی سنجیدہ ہی رہا
اس احتیاط نے اسے مجھ سے چھڑا دیا

جب کوئی بھی اتر نہ سکا میرے جسم میں
سب حال میں نے صرف اسی کو سنا دیا

اپنا لہو نچوڑ کے دیکھوں گا ایک دن
جینے کے زہر نے اسے کیا کچھ بنا دیا

Rate it:
Views: 468
25 Oct, 2021