راحت مجھے ملے نہ ملے کوئی غم نہیں
میں کیا تھا اور کیا ہوں کوئی کم نہیں
چاند بھی میرے محبوب کی طرح ہے دوستوں
آجائیں آمنے سامنے تو کوئی مدہم نہیں
کاری زخم دیکر یوں چھوڑا اس نے مجھے
اب کسی اور سے دوستی کا کوئی دم نہیں
تڑپتے رہے جس کے لئے عمر بھر
لاش پہ میری اس کی آنکھ کوئی نم نہہں
شکستہ دل سے تو نکلتی ہے آہ مگر
شفیق کیسے کہہ دے کہ مجھ پر کوئی کرم نہیں