راستے میں جو کٹا وہ زادِ سفر میرا نہ تھا
ہوش میں نہ تھا جو کھویا وہ صبر میرا نہ تھا
پروازمیں کوتاہ نگاہی نے یوں شرمسار کیا
نشانہ پر جو نہ لگا وہ دعائے اثر میرا نہ تھا
یہ ہاتھ خود چھوٹ کر ہاتھ سے جدا ہو گیا
گلستان جلا جس سے وہ شرر میرا نہ تھا
آس نے یاس سے ہٹ کر خود کو پاس کر لیا
بارانِ رحمت میں پھیلتا ہر ابر میرا نہ تھا
مجھے میری تلاش ہے تو اپنے انتظار میں
نسیمِ جاں میں جو رہ گیا وہ ثمر میرا نہ تھا
اتنا بھی کیا کم ملا پھر انتظار میں بیٹھ گیا
یہ فلکِ جہاں اس کا کوئی امبر میرا نہ تھا
جب لوٹنا ہی لکھا تقدیر میں منزل تا حدِ نگاہ
محمود بس تو لکھتا جا وہ نشر میرا نہ تھا