راہ ستم سے گزر کر منزل شوق تک جانا
یہ عادت ہی بنالی ہے اب دل نے جاناں
امید کی اک چھوٹی سی کرن کے پیچھے
مایوسیوں کے اندھیروں سے نکل جانا
ہے محبت ایسی آتش کہ حرارت میں
پتھر کا بھی دل ہے آخر پگھل جانا
معلوم ہے دور تک پانی نہیں صحرا میں
اکثر پیاس میں سیرابوں کی طرف نکل جانا
ٹوٹنے نہ دینا حوصلہ کسی بھی مقام پر
ہر بار مشکلوں کا میری ہمت سے گبھرا جانا