راہنما کل کارواں کے راہزن
عزتوں کا لوٹتے رہتے ہیں دھن
فکر انساں پر ہے چھای تیرگی
بے چراغاں جابجا اہل سخن
گل میں رنگ و بو نہیں تو جان لے
دشت کی مانند ہے تیرا چمن
عاشقوں نے رزم گاہ عشق میں
خون میں تر ہو کے پہنا ہے کفن
ناٰیز نزاع میں جھونکے شیخ نے
مرتضی سے نجم وہ بھی سیم تن